Thursday 5 March 2020

Asif Morio writes about me

ڈاکٹر درمحمد پٹھان ہمارے دور کی زندہ تاریخ
آصف رضا موریو
ڈاکٹردرمحمد پٹھان کی علمی اور ادبی شخصیت بیشمار حوالوں سے ہمارے لئے انمول و نایاب ہے کہ وہ تعلیم کے ڈاکٹر ہونے کے ساتھہ ایک معتبراستاد، شاندار لکھاری، تنقید نگار، مورخ، کالمنگار، شاعر، کہانیکار، علم و ادب دوست انسان ہیں جن کی تاریخ، تہذیب، علم الانسان، لوک ادب، بچوں کے ادب، سوانح عمری اور دیگر کئی موضوعات پر لکھی ہوئی پچیس سے زیادہ کتابیں چھپ کر منظرعام پر آچکی ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے ہزارہا مضامین مختلف اخبارات، رسائل و جرائد کی زینت بن چکے ہیں جن میں ہر نئے دن اضافہ ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ یہ تمام قابلِ فخر حاصلاتِ زندگی اپنی جگہ معتبر اورر قابلِ قدر ہیں ہی مگر انکی وجہہ شہرت "گل حیات انسٹیٹیوٹ" جیسے باوقار ادارے کی داغِ بیل ڈال کر اسے ایک وشال اور تناور درخت بنانا ہے۔
ڈاکٹرصاحب کا خاندان قریبن ایک ڈیڑھہ صدی سے خیرمحمدآریجو شہر میں آباد ہے۔ اس خاندان کے اکثر مرد لوک کام دھندھے سے متعلق تین کام کیا کرتے ہیں، ایک "لہارکا کام"، دوسرا "استاد کی نوکری" اور تیسرا کام "جانوروں کی حکمت و علاج"۔ اس خاندان میں دعا تعویذ لکھنے کا رواج بھی کئی پیڑھیوں سےعام تھا۔ ڈاکٹرصاحب کے تڑدادا، پڑدادا، والد اور چاچا بھی ساری عمر انہیں کاموں سے منسلک رہتے آئے مگر ایک دور ایسا آیا کہ لہارکا کام ان کی خاندانی پہچان بن گیا تھا۔ ان میں سے کسی نے مال دولت بنائی نہ جائداد اور نہ ہی زمین و املاک مگر عزتِ نفس کے ساتھہ روکھی سوکھی کھاکر اپنی اولاد کو علم و ہنر سے روشناس کرواکر پروان چڑہاتے رہے۔
ڈاکٹر صاحب کے آباواجداد اصل میں لاڑکانو ضلع کے شمال مشرق میں واقع ایک دوسرے گائوں پھیڑہاآریجا کے رہنے والے تھے جو بعد ازاں وہاں سے ہجرت کرکے مختلف دیہاتوں میں بستے بساتے کوٹھی کلہوڑا نامی ایک گائوں میں آباد ہوئے مگر کچھہ عرصہ رہنے کے بعد وہاں سے نکل کر باقرانی شہر میں آکر سکونت اختیار کی جہاں بھی زندگی کے معمولات سودمند نہ دیکھتے ہوئے انہوں نے وہاں سے بھی ہجرت کرکے کچھہ کلومیٹر جنوب میں واقع شہر خیرمحمد آریجا میں آکر آباد ہوئے اور اس قابلِ فخر ہنرمند و معلم خاندان کی موجودہ نسل اب بھی یہاں رھہ رہی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے پڑدادا حاجی خدابخش پٹھان کو نورمحمد، درمحمد، حبیب اللہ اور گل محمد نامی چار بیٹے تھے جن میں سے گل محمد ڈاکٹر درمحمد پٹھان کے والد تھے جس نے اپنے بڑے بھائی درمحمد کی جواں سال وفات کے بعد اپنے تیسرے بیٹے پر ان کا نام درمحمد رکھا۔ ان کے تینوں چاچا حکمت کا کام کیا کرتا تھے جبکہ حبیب اللہ سرکاری استاد بھی تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا والد لہارکے دھندے کے ساتھہ حکمت کا کام بھی کیاکرتا تھا مگر اس نے اپنے چاروں بیٹوں شفیع محمد، شیرمحمد، درمحمد اور امیربخش کو حسبِ حال تعلیم کے زیور سے آراستہ کروایا اور چاروں ہی تعلیم کھاتے میں استاد رہے مگر ان میں سے ڈاکٹر درمحمدپٹھان اپنے ذوق شوق اور ترقی پسندی کے سبب کچھہ زیادہ ہی آگے بڑھہ گیا۔
ڈاکٹر صاحب کی پیدائش 25 مئی 1945ع کو خیرمحمد آریجو میں ہوئی۔ انہوں نے پانچویں جماعت 1953ع میں گرلس پرائمری اسکول آریجا سے حاصل کی اور میٹرک گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری اسکول لاڑکانو سے حاصل کرنے کے بعد انہوں نے باقی تمام امتحانات خانگی طورپر دیئے۔ انہوں نے فرسٹ ییئر اور انٹر کا پرائیویٹ امتحان سکھر میں دیا کیوں کہ اس دور میں لاڑکانو میں خانگی امتحانی سینٹر نہیں ہوا کرتے تھے۔ 1971ع میں بی ایڈ فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن میں پاس کی حالانکہ اس دور میں تعلیمی پالیسیوں کےقانون موجب ایکسٹرنل شاگرد بی ایڈ نہیں کرسکتے تھے مگر اس وقت کے سیکریٹری عیسانی صاحب اچھے انسان تھے انہو ں نے ایک جنرل آرڈر نکالا تھاجس کی رو سے ایکسٹرنل شاگرد بھی ریگیولر طلبہ کی طرح بی ایڈ کر سکتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے 1972ع میں ایم اے کی جس میں انہوں نے فرسٹ کلاس تیسری پوزیشن پائی۔ 1979ع میں اس نے سندھہ یونیورسٹی جامشورو سے سندھی ادب میں پی ایچ ڈی کی جس میں ان کا عنوان تھا "کراچی کی ادبی تاریخ" اور ان کے سپروائیزر سندھہ کے لائق بیٹے غلام علی الانہ صاحب تھے.
ڈاکٹر کو 1964ع میں انگریزی استاد کی نوکری ملی تھی جبکہ ان کی پہلی پوسٹنگ اعتبار چانڈیو اسکول میں ہوئی تھی اور 13 نومبر 1973ع میں ڈاکٹر صاحب لیکچرر ہوئے۔ 29 مئی 1985ع میں اسسٹنٹ پروفیسر طور ترقی ہوئی جس سے دس دن پہلے ان کی تقرری انسٹیٹیوٹ آف سندھیالوجی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر ہوئی تھی جہاں بعد ازاں کچھہ ماہ کیلئے ڈائریکٹر کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیں۔ اعزازی صلاحکار پاکستان اسٹڈی سینٹر جامشورو 1989ع سے مئی 1990ع تک۔ نومبر 1991ع سے اپریل 1995ع تک گورنمنٹ سائنس کالیج ڈوکری کے پرنسیپل کے فرائض سرانجام دیئے جہاں وہ سندھی کے ایسوسیئیٹ پروفیسر بھی رہے۔ 14 اگست 2001ع میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر لاڑکانو ہوئے جہاں سے بیس گریڈ میں ترقی ہونے پر 1 مارچ 2003ع میں انہیں گورنمنٹ ڈگری کالیج سکھر میں پرنسیپل مقرر کیا گیا۔ 2004ع میں انہیں لٹرری اینڈ نان فارمل بیسک ایجوکیشن سندھہ کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا جس کے بعد گورنمنٹ ڈگری کالیج لاڑکانو کا پرنسیپل مقرر کیا گیا جہاں 24 مئی 2005ع میں ریٹائر ہونے تک اسی مقام پر فائز رہے۔
ڈاکٹر صاحب سدا بہار، ہمت ور اور محنت کش انسان ہیں اس لئے رٹائرمنٹ بھی ان کی شگفتی، جہدِ مسلسل اور باعمل جستجو کی راہ میں حائل ہوتے نہیں دیکھی گئی یہی سبب ہے کہ سرکاری نوکری ختم ہونے کے بعد بھی علم کےاس دریا سے کافی تعلیمی ادارے فیض یاب ہونے کی تگ و دو کرتے رہے۔ ستمبر 2005ع میں انہیں کیڈٹ کالیج لاڑکانو میں وائس پرنسیپل مقرر کیا گیا جہاں اکتوبر 2006ع تک اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ فیبرری 2009ع سے فروری 2011ع تک زیبسٹ کالیج لاڑکانو کے بھی پرنسیپل رہے۔ اس کے علاوہ آپ نے تین سال سندھہ آرکائیوز میں بھی کام کیا۔
ڈاکٹرصاحب مختلف یونیورسٹیوں اور بورڈز کیلئے لئے انٹرمیڈئیٹ، بی اے اور ایم اے کے سندھی پیپر تیار کرنے والی ٹیمز کے میمبر رہتےآئے ہیں۔ سندھہ یونیورسٹی جامشورو، شاھہ لطیف یونیورسٹی خیرپور، قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، پاکستان اسٹڈی سینٹر جامشورو اور دیگر تعلیمی اداروں میں پاکستان اسٹڈیز، تاریخ، کلچر، تعلیم، سندھی وغیرہ میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ و طالبات کے لئے سند یافتہ گائیڈ ہیں۔ اس وقت تک وہ بیشمار شاگردوں ایم فل اور پی ایچ ڈی کروا چکے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کو ان کی علمی قابلیت کے طفیل پاکستان بھر میں موجود مختلف تعلیمی اداروں کے بورڈ آف گورنرز کا اعزازی میمبر ہونے کا شرف بھی حاصل رہا ہے جن میں مرزاقلیچ بیگ چیئر، یونیورسٹی آف سندھہ، سندھی ادبی بورڈ جامشورو، بورڈ آف انٹرمیڈئیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کی اکیڈمک کائونسل لاڑکانو، بلاول ریسرچ انسٹیٹیوٹ نواب شاھہ، کیڈٹ کالیج لاڑکانو، بورڈ آف اسٹڈیز شاھہ لطیف یونیورسٹی خیرپور، بزمِ طالب المولیٰ وغیرہ خاص ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے زیادہ تر کتابیں سندھی زبان میں لکھی ہیں جن کی ترتیب کچھہ اس طرح ہے۔ موتي مور ملوڪ جا (1981ع)، اسان جا اديب (1983ع)، جو ڪيو مطالعو مون (1983ع)، آئينو ۽ اولڙو (1984ع)، ذهني آزمائش (1984ع)، سياسي چرپر (1985ع)، ڇيلڙي وارو شهزادو (1985ع)، مولانا عبيدالله سنڌي (1985ع)، آدرش رنگ (1986ع)، ادب ۽ ماحول (1987ع)، سنڌيالوجي سووينيئر (1987ع)، جهڙا گل گلاب جا (1988ع)، موتين مٺ ملوڪ جي (1991ع)، لاتيون سڻ لقمان جون (و 1995ع). آپ نے 2002 میں انگریزی زبان میں ایک کتاب بھی لکھی تھی جس کا نام تھا Luminaries of Larkano۔
• 2002ع کے بعد آپ کی کوئی کتاب نہیں آئی؟
زندگی بھر کی ادبی، تدریسی، انتظامی اور تحقیقی دنیائوں میں خدمتِ ملک و ملت کے صلے میں انہوں نے بے پایاں شہرت ، نام و مقام کمایا جو ان حق بھی تھا تو حاصلِ محنت بھی۔ اپنی محنت کے صلے میں انہیں بیشمار ایوارڈز و اعزازات ملتے رہے ہیں جن میں سے خاص اسطرح ہیں۔ ادیون ایوارڈ (1984ع)، سندھہ مدرسہ سلور ایوارڈ (1985ع)، وائس چانسلرز ایوارڈ (1987ع)، پاکستان اسٹڈی شیلڈ (1989ع)، ہوش محمد شیدی شیلڈ (1991ع)، سندھہ گریجویٹ ایسوسیئیشن گولڈ میڈل (1992ع)، ڈیپلائی ایوارڈ (1992ع)، طالب المولیٰ ایوارڈ (1993ع)، کیڈٹ کالیج شیلڈ (1994ع)، شیرل باڈاہی ایوارڈ (1995ع)، لاڑکانو ریسرچ ایوارڈ (2001ع)، مادرِ وطن ایوارڈ (2002ع)، لائیف ٹائیم اچیومنٹ ایوارڈ 2005ع (قلندرشہباز میلا کمیٹی)، لائیف ٹائیم اچیومنٹ ایوارڈ (سچل سرمست یادگار کمیٹی)۔ 2000ع امریکن بائیوگرافیکل انسٹیٹیوٹ نے ڈاکٹر صاحب کی بین الاقوامی سطح کی ادبی اور تحقیقی خدمات کے صلے میں انہیں THE 2000 MILLENNIUM MEDAL OF HONOR بھی دیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی علمی و ادبی خدمات کے صلے میں انسٹیٹیوٹ آف سندھیالوجی والوں نےاپنی تحقیقی لائیبرری میں "ڈاکٹر درمحمد پٹھان کارنر" رکھا ہے۔
• کارنر میں کیا رکھا ہے۔
گل حیات انسٹیٹیوٹ کا قیام
تاریخِ عالم کی تحقیقی اور ایجاداتی دنیا میں جھانکتاہوں تو البرٹ پائیک کا قول یاد آجاتا ہے کہ "دنیا میں قریبن تمام عمدہ چیزیں غریب لوگوں، غریب محققوں، غریب پیشہ ور لوگوں، غریب مزدوروں اور ہنرمندوں، غریب فلسفیوں، غریب شاعروں اور عقلمند لوگوں نے تخلیق کی ہیں"۔ ہماری سندھہ میں علمی دنیا سے متعلق عمدہ ترین چیزوں میں سے ایک گل حیات انسٹیٹیوٹ ہے جس کی ایجاد اور استحکام کا سہرہ بھی ہمارے ایک غریب استاد کے سر جاتاہےجس کے پاس علم کے ساتھہ اس بھی زیادہ طاقتور ایک چیز مشعلِ راھہ ہے جسے تخیل کہتے ہیں۔ علم محدود ہوتا ہے جبکہ تخیل پوری کائنات کو اپنے اندر سماسکنے کی لامحدودیت رکھتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب جب سندھیالوجی چھوڑ کر گائوں آیا تو اپنے پیچھے کئی سالوں کی انتہائی متحرک دنیا چھوڑآیا تھا اس لئے گائوں کے فارغ و نیم فارغ شب و روز کو اس مشقتی انسان کے محنتی دل و دماغ نے قبول نہیں کیا اس لئے کچھہ عرصہ سوچ بچار کے بعد اس کھوجی نے خاک میں سے خزانہ تلاش کرنے کے لئے کمر باندھہ لی۔ ڈاکٹر صاحب ایک بہترین منتظم ہیں جنہوں نے بیشمار ادبی، سماجی اور تاریخی انجمنیں اور ادارے بنائے جن میں سے خاص سندھہ ہسٹوریکل سوسائٹی، لاڑکانو ہسٹوریکل سوسائٹی، سندھہ سگھڑ سنگت، شہید ہوش محمد ویلفیئر آرگنائیزیشن، سندھہ رائیٹرز ویلفیئر گزٹ، سچل ادبی مرکزلاڑکانو وغیرہ خاص ہیں مگر جو ادارہ وجہہ شہرت بن کر ان کے ذوق و شوق کی آبیاری کرتا رہا اور جسے پروان چڑہانے کیلئے ڈاکٹر صاحب نے اپنا رت ست دیا وہ گل حیات انسٹیٹیوٹ ہے جس کا قیام انہوں نے اگست 1990ع میں خیرمحمد آریجو میں کیا جس خاص مقصد ادبی تحقیق و تدریس کے ساتھہ تعلیمی و تاریخی رہنمائی اور سماجی بھلائی کے اصولوں کو فروغ دینا تھا۔
ڈاکٹر صاحب کے والد کانام گل محمد تھا جبکہ حیات خاتون ان والدہ تھیں جن کے پہلے حروف اٹھاکر انہوں نے اپنے ادارے کو نام دیا جو آگے چل کر ان کے لئے بہت مبارک اور متبرک ثابت ہوا۔ ان کا والد خود تو ایک ان پڑھہ لہار تھا جو باقرانی شہر میں واقع اپنی دوکان پر ہر قسم کا لوہارکا سامان بنایا کرتا تھا مگر اس نے جو سب سے اہم چیز بنائی وہ تھا اپنے بیٹے کو دی گئی تعلیم کا ہتھیار جس کے بارے میں اس نے بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ "قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے"۔ اپنے بیٹے کی صورت میں اس فرہاد نے جو تیشہ بنایا وہ آج بھی جہالت کے اندھیروں کو علم کی روشنی سے چیرنے کا کام سرانجام دے رہا ہے اور مجھے یقین ہے کہ رہتی دنیا تک اس کی لگائی ہوئی پود ہماری آنے والی نسلوں کیلئے بھی سود مند اور بارآور ہوگی۔
گل حیات کے قیام سے متعلق ڈاکٹر صاحب کا شروعاتی نعرہ تھا کہ "مجھے آپ ردی دو میں آپ کو تاریخ دوں گا"۔ آج سے تیس سال پہلے سندھہ کے ایک دورافتادہ دیہاتی کلچر میں یہ نعرہ عجیب و غریب خیال کی ایسی پود تھی جس کو چوطرف سے وہم و گمانوں نے گھیرا ہوا تھا۔ ایک ریٹائر آدمی، ریاستی بی قدری، قومی بے حسی، وسائل کی کمی، وسیع اہل و عیال، بیشمار ذمیداریاں مگر کچھہ کر دکھانے کا جنوں مشعلِ راہہ رہا۔ شروعاتی دور میں کافی عرصہ تک ڈاکٹر صاحب کے چھوٹےبھائی امیر بخش پٹھان نے مواد حاصل کرنے، جمع کرنے اسے تحفظ دینے میں ان کی معاونت کی۔ ان کے بیٹوں ممتاز پٹھان اور زاھد پٹھان نے بھی اپنا قیمتی وقت دے کر ہمنوائی کی تو آپ کا پوتا محسن علی بھی آپ کا دست و بازو بنا رہا۔
ڈاکٹر پٹھان نے یہ ادارہ قائم کرکے نہ صرف اپنے والدین کا نام روشن کیا ہے بلکہ خود کو مصروف عمل رکھنے کے ساتھہ اپنی اولاد کو بھی زندگی گذارنے کا ایک احسن راستہ دیا۔ اس محبت اور عقیدت کے طفیل ان کا اپنا نام سندھی ادبی تاریخ و تحقیق کی دنیا میں وہائو تارے کی مانند چمک کر انہیں زندگی میں ہی ایک بہت بڑے لیجنڈ کے مقام پر پہنچا چکا ہے۔ مگر یہ مقام پانے کے لئے انہوں نے اپنی زندگی کے بیشمار قیمتی ماہ و سال اور شب و روز گل حیات کی ترتیب، تالیف اور ترکیب پر قربان کئے۔
ڈاکٹر پٹھان کا معتبر نام و ادارہ نہ صرف ہر دور کے منصفوں، محققوں اور مورخوں کے لئے دلچسپی کا حامل رہتا آیاہے بلکہ تحقیقی کام سے جڑے بیشمار ادارے و اشخاص ان کی محنت سے مستفید ہوتے رہتے ہیں جنہیں ڈاکٹر صاحب سے ہر قسم کا تعاون ملتا رہتا ہے جن میں سے سندھیالوجی، سندھہ مدرسۃ الاسلام، لطیف چیئر کراچی یونیورسٹی، نیشنل بک کائونسل آف پاکستا ن، گوئٹے انسٹیٹیوٹ کراچی، بیورو آف کیوریکیولیئم جامشورو، سچل چیئر کراچی یونیورسٹی، پاکستان اکیڈمی آف لیٹرز، ریڈیو پاکستان کراچی، حیدرآباد، لاڑکانو، خیرپور، پاکستان نیشنل سینٹر کراچی اور لاڑکانو وغیرہ خاص ہیں۔
گل حیات میں ہزارہا نایاب کتابی نسخوں سے متعلق بیشمار تحقیقی دنیائیں آباد ہیں جن میں سے ہر دنیا کے پیچھے پھر سے الگ دنیائوں کا ایک سلسلہ جڑا ہوا ہے۔ ڈاکٹرصاحب نے وہاں 1843ع سے لے کر آج تک ہر قسم کا مواد اکٹھاکیا ہے جسے پڑہنے والوں کی سہل پسندی کے لئے سائینسی اور تیکنیکی طریقےکار بروئے کار لاکر موضوع کے حساب سے 20 مختلف کارنرز یا چیئرز میں بانٹ کر چھانٹ رکھا ہے جو ایک انتہائی محنت طلب کام ہے جو مجھے حیرت ہے کہ یہ بوڑھے شیر نے اکیلے سر کس طرح کیا ہوگا۔
ڈاکٹر صاحب نے گل حیات کے خزانےکو صرف عمارت تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے جدید ترین کمپیوٹر دنیا، میڈیا اور سوشل میڈیا میں بھی متعارف کروایا ہے تاکہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے محقق اس کی محنت سے بحرآور ہوں۔ نئےمحققوں اور طالب علموں کو بھی ڈاکٹر صاحب فون، خطوط اور ای میل کے ذریعے تحقیقی اور تدریسی امداد کرکے منزل کے تعین میں مدد کرتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ گل حیات کی ویب سائیٹ پر محققوں اور شاگردوں کے لئے کافی سارا مواد دے رکھا ہے تاکہ ضرورت مندوں کو وہ ہر وقت مہیا رہے اور ہماری نسل صدیوں تک اپنے شاندار ماضی سے متعلق جانکاری حاصل کرکے اپنے خطے کی تاریخ سے دلچسپی کی بنیاد پر وابستگیاں قائم کرے۔ دنیا بھر سے ہر طبع و فکر کی شخصیات گل حیات میں جمع خزانے کو دیکھنے اور اس سے مستفیظ ہونے آتی رہتی ہیں جن کے لئے گل حیات ایک گیسٹ ہائوس بن جاتا ہے جہاں ایک بورچی خانہ بھی موجودجہاں اکثراوقات ڈاکٹر صاحب مہمانوں کے لئے خود ضیافت کا بندوبست کرتے ہیں تو کبھی کوئی من چلا ان کی خدمت کرنے ہاتھہ بٹالیتا ہے۔
حضرت محمد صلعم کا قول ہے کہ "محقق کے قلم کی روشنائی شہید کے خون سے زیادہ مقدس ہوتی ہے"،۔ شاید اس لئے ہی اقوامِ عالم اپنے ان دانشوروں کو خزانوں سے تعبیر کرتی ہیں جن کے پاس اعلیٰ کردار، عقلمندی اور عظیم روح ہوتی ہے، اس لئے وہ ہمت سے جیتے، سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔ دانشور جانتے ہیں کہ خوابوں کی تعبیر جادو ٹونے سے نہیں حاصل کی جاسکتی بلکہ اس کیلئے خون و پسینے سے چراغ جلاکر نظم و ضبط سے منزل کا تعین کرکے دل، دماغ اور عمدہ اعصاب کے ساتھہ سخت جستجو کرنی پڑتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ساری زندگی اسی جہدِ مسلسل کی اعلیٰ مثال ہے کہ اس نے سیکھنا اور سکھانا عادت بنا رکھی ہے جو اس کے خون پسینے میں اس طرح رچ بس چکی ہے۔
اپنا قیمتی وقت، رتجگے، آنکھوں کا نور، اپنے پیاروں کو دئے جانے والے وقت میں ہیراپھیری کرکے، اپنے آپ کو دیئے جانے والے کروڑوں لمحے اپنے آپ سےچرا کر اخبارات و جرائد کی ردی سے ہمارے لئے ہمارا اتھاس جوڑنے والے اس ادبی پیغمبر نے جو محنت کی ہے اس کے لئے کئی اداروں اورکئی عمروں کا ہونا ناکافی ہے۔ یہ دنیا حیرت کدہ ہے جہاں ہمارے جیسی سہلِ طلب قوم میں سے بھی ڈاکٹر درمحمد پٹھان جیسے سرپھرے مل ہی جاتے ہیں جنہوں نے وہ سب کچھہ کرکے دکھایا ہے جو کرنے کا سوچنے سے بھی انسان گھبراتا ہے۔ ان کی محنت دیکھہ کر سمجھہ میں نہیں آتا کہ اس انسان کو ہمارے دور میں کہاں بٹھایا جائے اور اس کی حاصلِ محنت کو کونسا مقام دیا جائے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ میں خود بھی اپنی دنیا میں لکھنے لکھانے سے متعلق دیو مانا جاتا ہوں مگر ڈاکٹر صاحب کی محنت دیکھہ کر مجھے ایسے لگتا ہے کہ میرے جیسے لوگ اس پہاڑ کے سامنے کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔
اس کے علاوہ گل حیات میں بیشمار نایاب کتابی خزانے کے ساتھہ کمیاب ترین تصاویر کی صورت میں جمع کی گئی تاریخ کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے جسے دیکھنے کے بعد اس کے کھوجی خالق کی ہمت، محنت، شوق اور عظمت کا تہہِ دل سے قائل ہونا پڑجاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے پاس ادبی امداد کی تدوین و ترسیل کیلئے کبھی ناں نہیں دیکھی گئی ہے یہی سبب ہے ہر پیاسا چاہے ادارہ ہو یا فرد یہاں سے سیراب ہوتا رہتا ہے۔ ہماری قوم سے متعلق یہ ایک عجیب و غریب حقیقت ہے کہ جس قوم نے اجتماعی اور انتظامی طور پر ہمیشہ تاریخ سے پہلو تہی کی ہے وہاں اس ایک آدمی نے پورے خطے کی تاریخ کو ردی کے ٹکڑوں سے جوڑ کر و ہ کام کیا جو آج تک بڑے سے بڑا ادارہ نہیں کر سکا، ڈاکٹر صاحب نے علم، ادب اور تاریخ کے حوالے سے ہر اس چیز کو پیاردے کر اس کی پرورش کی ہے جس سے ہم لوگوں نے ہمیشہ اضافی بوجھہ اور نفی کا سامان سمجھہ کر انکار کیا۔
ڈاکٹر صاحب کی محنت کی ایک مثال دیتا ہوں کہ انگریزی دور سے اس وقت تک جتنی بھی سیاسی پارٹیاں جڑیں سب کے پروفائیلی فائیل گل حیات میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر سندھہ سبھا، سندھہ ہندو سبھا، سندھہ بمبئی صوبائی کانفرنس، برٹش ایمپائر لیگ، سندھہ پراونشل کانفرنس، ہوم رول لیگ، سندھہ مسلم لیگ، ستیہ گرھہ سبھا، سیوادیشی سبھا، جمیعت العلما، خلافت کامیٹی، امن سبھا، اینٹی نان کوآپریشن سوسائٹی، دی نیشنل سروس لیگ، سوراج سبھا، سندھہ سوراج سوسائٹی، سندھہ زمیندار ایسوسیئیشن، اپر سندھہ زمیندارز ایسوسیئیشن، نیشنل کنوینشن کلب، سندھہ زمیندارز سبھا، ہاری پارٹی، اینٹی سیپریشن کامیٹی، سندھہ آزاد کانفرنس، سندھہ پیپلز پارٹی، سندھہ آزاد پارٹی، انڈین نیشنل لیگ، سندھہ پروگریسو پارٹی، سندھہ پولیٹیکل کلب، سندھ پیپلز کانگریس کامیٹی، سول لائیبرٹیز یونین، سندھہ یونائیٹیڈ پارٹی، سندھہ مسلم پولیٹیکل پارٹی، سندھہ لیبر پارٹی، سندھہ سوشلسٹ پارٹی، یونینسٹ پارٹی، خاکسار تحریک، آل انڈیا مسلم لیگ، سندھہ ساگر پارٹی، مسلم نیشنلسٹس پارٹی، سندھہ بلوچستان کمیونسٹ پارٹی، سیاسی ادب، جیئے سندھہ، جیئے سندھہ قومی محاذ، سندھی ہاری کمیٹی، جیئے سندھہ تحریک، ترقی پسند پارٹی، ، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ کے سارے گروپ، سندھہ نیشنل فرنٹ، عوامی تحریک، سندھہ ڈیموکریٹک پارٹی وغیرہ کے تمام رہبران، مختلف ونگز اور ان کے صدی بھر سے بھی زیادہ کے عرصے میں ہونے والے مشغلات کو الگ الگ ٹاپک میں جمع کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے بڑے بیٹے ہمارے دوست ممتازپٹھان ہر آئے دن عرق ریزی سے گل حیات کے علمی سمندر میں غوطے لگاکر انتہائی انمول موتیوں جیسے موضوعات سے ہمیں روشناس کراتے رہتے ہیں جنہیں میں اپنی ہزارہا مصروفیات کے باوجود ضرور پڑہتا رہتا ہوں کیوں کہ وہ میرے لئے انتہائی معلوماتی اور ضروری ہوتے ہیں۔
کچھہ لوگ زمین پر اپنے آپ کو بھیجے جانے کا مقصد اور خدا تعالیٰ کا (اپنے متعلق) منصوبہ جان لیتے ہیں اور اپنی زندگی کو ڈر اور اندیشوں کی کھائی میں جھونکنے کے بجائے اسے سمجھہ کر اپنی منزل کھوجنے کی راہہ پہ چلنا شروع کردیتے ہیں جسے ان کے حوصلےبہت جلد ہی پالیتے ہیں۔ ڈاکٹرصاحب بھی اسی قسم کے لوگوں میں سے ہے جو اس دنیا میں اپنے حصے کا کام کرچکنےکے بعد اپنا قوم فرض بھی ادا کر چکے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ "ترقی یافتہ ملکوں میں اقوام کی تین آنکھیں ہوتی ہیں جن میں سے ایک ماضی پر دوسری حال پر اور تیسری اپنے مستقبل پر نظر رکھنے کیلئے کام آتی ہے جبکہ ہماری قوم کے پسمنظر میں تینوں آنکھیں نہ ہونے کے برابر ہیں ہی مگر ہمارا حافظہ بھی بیحد کمزور ہے۔ اسلئے ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل ہونے کے لئے نہ صرف ہماری تینوں آنکھیں سلامت ہونی چاہییں بلکہ ہمارا مستقبل تب ہی سدھر سکتا ہے جب ہم اپنے ماضی سے سبق لے کر حال کو سنوارنے کی کوشش کریں"۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی تینوں آنکھوں کے ساتھہ چوتھی علمی آنکھہ کو بھی بروئےکار لاکر گل حیات میں ہماری قوم کے ادب، اخلاق، سماجیات، تہذیب اور تمدن کے اجتماعی عمل اور ردعمل کا ایک مکمل رکارڈ جمع کیا ہے تاکہ ہماری آنے والی نسل اس سے مستفید ہوکر منزلِ حیات و نجات کا تعین کر سکے۔
حکومت کو چاہے کہ محبت سے کی گئی اس مزدوری کو کسی نہ کسی طرح اپنا کر لاڑکانو میں ڈاکٹر درمحمد پٹھان کے نام سے ایک بڑا ادارہ بنایا جائے یا اسی بلڈنگ میں اس خزانے کو نیشنلائیز کیا جائے کیونکہ اب بات صرف ڈاکٹر پٹھان صاحب کی نہیں بلکہ ہمارے ملک کے ہر سیاسی، سماجی، ادبی، تہذیبی، تمدنی اور تاریخی پسمنظر میں انتہائی عرق ریزی سے جمع کئے گئے لاکھوں اوراق کی ترتیب سے نہ صرف سینکڑوں کتابیں جوڑی جا سکتی ہیں بلکہ ہمارے آنے والی نسل کو ایک ایسا طاقتور اور مدلل تحقیقی پلیٹ فارم مل سکےگا جو صدیوں تک علم کے پیاسوں کی پیاس بجھانے میں معاون ثابت ہوگا۔
اس کے ساتھہ سرکارِ وقت اور ہماری قوم کو چاہیے کہ اپنا خون پسینہ ایک کرکے جمع کی گئی اس محنتِ انمول کی وجہہ سے ڈاکٹر صاحب کی جس قدر ہوسکے عزت و تکریم ہوسکےکی جائے کیوں کہ اس دورِ ناگوار میں جہاں ہم لوگ اجتماعی اور انفرادی طور پر اپنی اپنی خواہشوں کے غلام بنے پارٹیوں اور آوارہ گردیوں میں لگ کر قوم، ملک، نسل ، زمین اور رشتے ناطے بیچنے والے رہزنی ٹولوں میں شامل ہوکر ایکدوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں۔ جہاں ہم غفلت کی نیند اور جہالت کی جاگ میں ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں وہاں ایک اکیلا آدمی زمیں میں جڑیں جوڑنے کے گنوں کو جنم دے رہا ہے، ہمارے بنجر سماجی ذہنوں کی خوں آلود کیاریوں میں دعائوں کی آبیاری کر رہا ہے، پتھر کلیجہ رکھنے والوں میں مٹی سے پیار کرنے کے سلیقے بو رہا ہے، اپنی ٹھکڑائی ہوئی تاریخ کی تدوین کر کے تہذیب کی رکھوالی کے لئے اتنا جاگا ہے کہ اب اسکی آنکھیں بھی سوج گئی ہیں۔ ہمارے لئے اتنا بولا ہے کہ اس کا گلا بیٹھہ گیا ہے اور اتنا لکھا ہے کہ اس کے مقدس ہاتھہ تھک گئے ہیں مگر پھربھی اپنے وجود کی تھکان اوڑھے وہ اٹوٹ مانجھی ہمارے لئے کئی محاذوں پرڈٹا ہوا ہے اور یہ سب کچھہ وہ کسی لالچ، عہدے، مریادہ یاپیسوں ویسوں کے چکر میں نہٰیں کر رہا ہے بلکہ یہ من چلا اپنے دل سے سودا کرکے ہماری آنے والی کئی نسلوں کو اپنا ٹائم بینک دے کر علمی، ادبی، تہذیبی اور تاریخی طور پر مقروض کرنے کے مقدس کام میں جتا ہواہے صرف اپنی مٹی کا قرض چکانے، قوم کو جہالت سے آزادی دلانے اور ہم سب سے پیار پانے کیلئے۔ عنداللہ ماجور۔

1 comment: