مارے عہد کی چند علمی اور ادبی جماعتیں
ڈاکٹر در محمد پٹھان
سندھی زبان اور علم و ادب کے فروغ میں علمی ، ادبی اور ثقافتی جماعتوں نے اہم رول ادا کیا ہے یہ جماعتیں ہم خیال افراد کو مشترکہ پلیٹ فارم مہیا کرتی رہی ہیں جس کے نتیجے میں ہمارے عالم، ادیب اور شعراء اور دوسرے قلمکاروں نے اپنی صلاحیتوں اور لیاقتوں کو مشترکہ قوت کے روپ میں سندھی زبان اور علم و ادب کے مفاد کی خاطر کام میں لائے ہیں۔
علمی ادبی اور ثقافتی جماعتیں انگریزوں کے دور میں قائم ہونا شروع ہوئیں، ”میکس ڈینسو ہال لٹریری سوسائٹی “ سندھ میں قائم ہونے والی پہلی سوسائٹی ہے، جو 1885 کی آگسٹ کے دوراں قائم ہوئی ، پادری بمبرج اسکے پہلے سیکریٹری تھے، سندھی زبان کے کتنے ہی نامور عالم، ادیب، اور شاعر اس جماعت کے اجلاسوں میں شرکت کرتے تھے، ان میں دیا رام گدومل، کوڑیل، چندن مل اور ھیر آنند شوقیرام کے نام قابل ذکر ہیں۔ سوسائٹی یہ بدھ کی شام ساڑھے چھ بجے ڈینسو ہال میں اجلاس ہوتا تھا۔
سندھ میں ادبی سوسائیٹوں کا قیام آل انڈیا کانگریس کے بننے یا یہ کہا جائے کہ سندھ مدرستہ الاسلام قائم ہونے سے بھی پہلے ہوا، ایک صدی کے اسی عرصے میں سندھ میں ہزار سے زیادہ علمی، ادبی اور ثقافتی جماعتیں قائم ہوئیں، ان جماعتوں اور اداروں کی فہرست تیار کر کے انسٹیٹوٹ آف سندھالاجی میں رکھا گیا ہے تاکہ ہر ایک جماعت، ادارے یا تنظیم پر تفصیل سے تحقیقی کام کیا جاسکے اپنی تاریخ کے گمشدہ اوراق کو محفوظ کیا جاسکے، اسی لئے میں نے دانشوروں کی علمی، ادبی اور ثقافتی خدمات کو محفوظ کرنے کے لئے ایسی منصوبہ بندی بنائی ہے تا کہ قلم کاروں اور دانشورں کے ساتھ علمی، ادبی اور ثقافتی جماعتوں، تنظیموں اور اداروں کی سرگرمیوں کا ریکارڈ بھی محفوظ کیا جاسکے، اس سلسلے میں ”سندھی ادبی سنگت“ اور ”بزم طالب المولیٰ“ کی تمام شاخوں سے رابطہ کیا گیا ہے اور انہیں پروفارما بھیجے گئے ہیں، اس وقت تک ادارے میں کافی جماعتوں کا جزوی اور بنیادی ریکارڈ ترتیب کے ساتھ محفوظ کیا گیا ہے، پر اس کے باوجود بھی اس دور کی تمام علمی، ادبی اور ثقافتی جماعتوں کے ریکارڈ کو محفوظ کرنا مجھے اکیلے انسان کا کام نہیں ہے، اگر ہمارے علماء شعراء اور تخلیکار نے اپنی تاریخ دوستی کا ثبوت دیا اور بھرپور تعاون کیا تو موجودہ دور کی علمی ، ادبی اور ثقافتی جماعتوں کا ریکارڈ محفوظ ہو سکتا ہے، اگر ہم نے خود سستی کا مظاہرہ کیا تو پھرتاریخ میں محض نام رہ جائے گا۔
1885ء سے لیکر آج کے دن تک کتنی ہی جماعتیں بنی اور ختم ہوگئیں، لیکن چند کے سوا کچھ کے تو نام بھی ہمیں یاد نہیں آر ہے، کسی کو یقین آئے گا کہ ہمارے دور کی ”سندھ گریجوئٹس ایسوسیشن“ پہلے1912 میں سندھ گریجوئٹس ایسوسیشن شکارپور میں قائم ہوئی تھی! تاریخ ہر دور اور ہر موڑ پر اپنا سینہ چاک کرتی رہی ہے، لیکن کچھ کچھ خوش نصیب ہی اسکے سینے کی خوشبو سمیٹ سکے ہیں، موجودہ دور میں بھی سندھ کی آئندہ کی تاریخ ” دانشوروں کی منصوبہ بندی آواز سے ہمیں پکارتی رہی ہے، دیکھیئے ہم علم دوستی اور ادب پروری کے دعویدار کتنا اور کیسے اس پکار کو سنتے اور خود کو تاریخ کے اوراق میں محفوظ کراتے ہیں، اس کے تحت میں اپنے دور کی کچھ جماعتوں کا مختصر تعارف پیش کرتا ہوں، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم اجتماعی طور پر زبان اور علم و ادب کی کیسے اور کتنی خدمت کرنے کے عادی ہیں۔
1. ”ادارہ روح ادب [سندھ] “؛ یہ ادارہ محترم مخدوم محمد زمان صاحب طالب المولیٰ کی سرپرستی میں قائم ہوا، مرحوم سرشار عقیلی ، اختر ھالانی، عارف المولیٰ اور مرحوم محمد خان ”غنی“ اس جماعت اہم عہدیدار مقرر کئے گئے، ”ادارہ روح ادب“ نے اپنے دور کی ایک ادبی تحریک کا روپ لیا اور اس کے حلقے میں سندھ کی ہر جگہ سے شاعر اور ادیب شامل ہوئے، ادارے کا صدر دفتر ھالا میں تھا اور اس کی شاخیں سندھ کے مختلف شہروں اور دیہاتوں میں بھی قائم ہوئیں، ان اداروں نے سندھی زبان اور علم و ادب ترقی اور تبلیغ واشاعت کے لئے قابل تعریف کام کیا۔
2. ”الخالق ادبی ادارہ [ھالا] “؛ یہ ادارہ غلام رسول ”غلام“ کی سرپرستی میں قائم ہوا اور محسن حسن ” ساز“ ، عثمان سنگراسی، محمد حسین ”آزاد“ اور ”انور“ ھالانی نے اس کے قیام خواہی کارکردگی میں اہم حصہ لیا، اس ادارے نے اپنی ادبی سرگرمیوں کے علاوہ اپنے میمبرز میں تعلیم کی اہمیت اور عظمت کا احساس دلانے کی کوشش کی۔
3. ”انجمن[دادو]؛“ یہ ادبی انجمن دادو کے استاد شاعر حافظ محمد حسن چنہ اور رئیس ضیا الدین ”ضیاء“ کی کاوش کا نتیجہ ہے، انجمن نے اس وقت تک ان گنت ادبی نشتوں اور مشاعروں کا اہتمام کیا ہے، حافظ ”احسن“ اس انجمن کے روح رواں رہے ہیں۔
4. انجمن علم و ادب [ھالا]؛ ”کی یہ علمی اور ادبی جماعت محمد اسماعیل عرسانی کی کوششوں سے قائم ہوئی، انور ھالانی نے سیکریٹری کی حیثیت سے سالہا سال اس جماعت کی خدمت کی، اس انجمن نے کتنا ہی وقت سندھی زبان اور علم و ادب کے گھڑے بھرے۔“
5. ”انجمن علم و ادب [گوٹھ صوفی فقیر] “؛ یہ انجمن محترم ”معمور“ یوسفانی کی علم دوستی کا نتیجہ تھی، انجمن نے کتنا وقت گوٹھ صوفی فقیر اور علم کے ماحول کو رواں دواں رکھا۔
6. ”انجمن فروغ ادب [ھالا]“ یہ انجمن ھالا کے دوست اور ادب پرور ادیبوں اور شاعروں کی کوششوں کا نتیجہ تھی، ڈاکٹر سلیمان شیخ، عبدالقادر ابڑو، عبدالرحمان قریشی، یوسف ابڑو اور الطاف شیخ اس انجمن کے خاص کارکن رہے ہیں، انجمن کی جانب سے کتنے ہی ادبی اجلاس ہوئے، اس کے علاوہ انجمن نے اشاعتی پروگرام کے ذریعے زبان کے فروغ کے لئے قابل تعریف کام کیا، اس انجمن کا پرانا ریکارڈ ڈاکٹر سلیمان شیخ کی مہربانی سے ہاتھ آسکا ہے، جس میں نے ترتیب دیکر انسٹیٹوٹ آف سندھالاجی میں دانشوروں والی منصوبابندی کے حوالے سے محفوظ کیا ہے۔
7. ”بزم ادب [سکھر]“ شروعاتی دنوں میں سکھر اور پرائمری کے اساتذہ کا کالیج ہوتا تھا، اسکے بعد ہی مشرقی سندھ اور دوسرے مقامات پر ایسے کالیج قائم ہوئے سکھر کالیج میں اساتذہ اور شاگردوں کے تعاون سے ”بزم ادب“ کے نام سے جماعت قائم ہوئی، جس کی طرف سے ادبی اجلاس اور مشاعرے منعقد کئے گئے۔
8. ”بزم ادب [شھدادکوٹ]“؛ یہ بزم محترم گل حسن گوپانگ اور ان کے ساتھی شاعروں کی کوششوں کا نتیجہ تھی، بزم کی طرف سے کچھ مشاعرے بھی کروائے گئے۔
9. ”بزم ادب [لاڑکانہ] “ یہ بزم محترم گل حسن گوپانگ اور انکے ساتھیوں کے تعاون سے قائم ہوئی، اس بزم نے کتنے ہی پرائمری اساتذہ کو شعر و شاعری کی طرف راغب کیا۔
10. ”بزم ادب [میرپور ساکرو]؛“ یہ بزم پیرل پیا سے اور انکے شاعر ساتھیوں کی کاوش نتیجہ تھی، بزم کی جانب سے اکثر و بیشتر مقامی نوعیت کے مشاعرے ہوتے تھے، جنھوں نے نئے سیکھنے والوں شاعروں کو فنی تربیت مہیا کی۔
11. ”بزم ادب [خیرپورناتھن شاہ]؛“ یہ بزم خیرپور ناتھن شاہ کے ادبی شیدائیوں کی طرف سے قائم کی گئی، جس کی طرف سے مقامی نوعیت کے مشاعرے بھی ہوئے، حکیم محمد صادق نے بزم کے قیام اور کارکردگی میں اہم کردار ادا کیا۔
12. ”بزم اصغر[کراچی]؛“ یہ بزم سندھ کے نامور شاعر مرحوم محمد جمن ھالی نے اپنے بیٹے کے نام سے قائم کی۔ بزم کی طرف سے کتنے ہی مشاعرے منعقد کروائے گئے، جن میں کراچی کے علاوہ اندروں سندھ کے شاعروں نے بھی شرکت کی۔
13. ”بزم بلبل [میہڑ]؛“ یہ بزم سندھ کے نامور شاعر مرحوم شمس الدین بلبل کے نام، ان کی یاد میں قائم کی گئی ، جس کے صدر مرحوم بلبل کے فرزند رئیس ضیاء الدین ”ضیاء“ تھے، بزم کی طرف سے کتنے ہی مشاعرے کروائے گئے۔
14. ”بزم حکیم [کراچی]؛“ یہ بزم محترم عبدالرحمان ”نسیم“ اور ان کے ساتھی شعراء کے تعاون سے قائم ہوئی، بزم کا نام سندھ کے نامور شاعر، ادیب، صحافی اور عالم حکیم فتح محمد سیوہانی کے نام پر رکھا گیا تھا، اس بزم کی طرف سے کتنے ہی مشاعرے کروائے گئے اور اس طرح کراچی کے ماحول کو ادبی رنگ سے رنگ دیا گیا۔
15. ”بزم صابر[نیا جتوئی]؛“ یہ بزم نیا جتوئی کے شاعر جمال الدین ”مومن“کی کوششوں سے قائم ہوئی ، بزم نے کتنے ہی مقامی نوعیت کے مشاعرے منقد کروائے اور کتنے ہی مقامی نوعیت کے مشاعرے منعقد کروائے اور کتنے ہی عرصے تک گائوں کے ادبی ماحول کو معطر کر کے رکھا۔
16. ”بزم طالب [خیرپور ناتھن شاہ]؛“ یہ بزم خیرپور ناتھن شاہ کے ادیبوں اور شاعروں کی کوشش سے قائم کی گئی، جس کے ذریعے شاعری کا شوق رکھنے والے نوجوان طبقے کو تربیت دینے کا بندوبست کیا گیا، اس بزم کے قیام اور کارکردگی میں ”افضل“ مصرپوری ”آثم“ ناتھن شاہی اور محسن ککڑائی ، ”وفا ناتھن شاہی“ راز ناتھن شاہی، وغیرہ نے اہم کردار ادا کیا۔
17. ”بزم طالب المولیٰ [سندھ]؛“ یہ بزم سندھ کے نامور شاعر اور روحانی پیشوا حضرت مخدوم محمد زمان کی سرپرستی میں 1954 قائم ہوئی، بزم اپنے دور کی ایک ادبی تحریک بن کر ابھر کر آئی جس کی سندھ کے اہم گائوں اور شہروں میں شاخیں قائم ہوئیں، بزم سندھ میں شاعری کی شمع کو برسوں تک روشن کر کے رکھا گیا اور کتنی ہی کانفرنس منعقد کرائی گئی، اس وقت بھی بزم فعال ادبی جماعتوں میں سے ایک ہے، بزم کی شاخیں اپنی علمی، ادبی اور ثقافتی خدمات والی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، اس بزم کی شاخوں نے اپنی سرگرمیوں اور خدمات کا ریکارڈ انسٹیٹوٹ آف سندھالاجی میں محفوظ کروایا ہے۔
18. ”بزم راشدی [خیرپور ناتھن شاہ؛“ یہ بزم حکیم محمد صادق کی کاوشوں اور انکے ساتھیوں کے تعاون سے قائم ہوئی، بزم خیرپور ناتھن شاہ کے ادبی ماحول میں اور بھی زیادہ رنگ بھرنے کی قابل تعریف کوشش کی گئی اور شاعری کی خدمت کی۔
19. ”بزم رفیق [ہالا]؛ “ یہ ادبی جماعت منصورو دیراگی کی کوششوں سے ہالا میں قائم ہوئی، جس کے سیکریٹری غلام ابڑو تھے، اس جماعت نے تقسیم کے بعد کی اتار چڑھائو والی صورتحال سے ادبی ماحول کو گرما کر رکھا۔
20. ”بزم سچل[لاڑکانہ]؛“ شاعر ہفت زبان حضرت سچل سرمست کے فکر اور پیغام کو عام کرنے اور ان کی یاد کو تازہ رکھنے کے لئے یہ بزم لاڑکانہ میں قائم ہوئی، مرحوم عبداللہ ”اثر“ ، ”محسن“ لاڑکانوی اور لقمان حکیم وغیرہ جسے شعراء نے بزم کی جوت کو کافی عرصے تک جلائے رکھا اور شاعری کے متوالے نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے مواقع فراہم کئے۔
21. ”بزم سرشار [کراچی]؛“ مرحوم اللہ بخش ”سرشار“ عقیلی ، کراچی میں رہنے والے عرصے کے دوران وہاں کے دلوں پر علمی اور ادبی خدمت کی اور کتنے ہی نوجوانوں کو علم ادب کی دنیا سے مانوس کرایا، ان کی وفات کے بعد کراچی کے رہنے والوں نے ان کی یاد میں ان کی علمی خدمات کو تازہ رکھنے کے لئے یہ بزم بنائی، جس کے طرف سے وقتا فوقتا مشاعرے ہوتے رہے، محترم صوفی دوست محمد ”ساجد“ سرشاری نے اس بزم کے قیام اور کارکردگی میں اہم حصہ لیا۔
22. ”بزم سروری[گوٹھ صوفی فقیر]؛ “ سروری درگاہ کی ادبی تحریک جس کے نتیجے میں سندھ کے مختلف دیہاتوں میں بزم اور انجمنیں قائم ہوئیں، جن میں ”بزم سروری“ بھی ایک تھی، محترم محمور یوسفانی نے اس بزم کے قیام اور کارکردگی میں اہم حصہ لیا۔
23. ”بزم سر دریہ[ہالا]؛“ یہ بزم پروفیسر محبوب علی چنہ کی کوششوں سے قائم ہوئی ”محبوب“ سروری جماعت کے پہلے جنرل سیکریٹری بنے، اس بزم نے کتنے ہی مشاعرے منعقد کروائے اور ادبی خواہ علمی مباحثے کرائے، اس کے علاوہ کتنے ہی ڈرامے بھی اس بزم نے اسٹیج کروائے۔
24. ”بزم خلیل [حیدرآباد]؛“ یہ بزم مرحوم ڈاکٹر محمد ابراہیم ”خلیل“ کے دم سے آباد تھی اور یہ 1948ء میں قائم ہوئی، اس بزم نے حیدرآباد کے نئے خواہ پرانے شاعروں کو اپنی جوت جلانے اور صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقعہ فراہم کیا، مرحوم عبداللہ ”خواب“ اور بلاول پردیسی نے اس بزم کے سرگرم کارکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
25. ”بزم فردوس [ہالا]؛“ یہ بزم محترم مخدوم طالب المولیٰ کی سرپرستی اور ہالا میں قائم ہوئی، اس بزم نے کتنے ہی عرصے تک ہالا کے ادبی ماحول کو معطر کر کے رکھا ۔
26. ”بزم گلستان [ہالا]؛“ یہ بزم منصور ویراگی کی کاوش سے قائم ہوئی، اس جماعت نے کتنے ہی وقت تک نئی نسل کو ادبی تربیت مہیا کی اور نوجوانوں میں علم دوستی کا جذبہ جگایا۔
27. ”بزم لطیف[گبریلو]؛“ سندھ کے سدا حیات شاعر لاکھنے لطیف کے نام سے تھی یہ بزم ”ناطق“ گبریلائی نے اپنے گائوں میں قائم کی، اس بزم نے کچھ عرصے تک وہاں کے ماحول میں ادبی رنگ پیدا کیا اور مقامی نوعیت کے مشاعرے منعقد کروائے۔
28. ”بزم مخلص[کندھ کوٹ]؛“ یہ بزم کندھ کوٹ کے شاعروں اور ادیبوں نے قائم، بزم کے نام سے تو ظاہر ہے کہ یہ سندھ کے ظرافت کے بادشاہ نامور شاعر محمد ہاشم مخلص کے نام سے منسوب کی گئی ہے، اس بزم نے کافی عرصے تک سندھی زبان اور علم و ادب کی خدمت کی ہے۔
29. ”بزم مولائی شیدائی [محمد پور اوڈھو]؛“ بے لوث نامور اسکالر مرحوم مولائی شیدائی کی یاد کو تازہ رکھنے کے لئے یہ بزم محمدپور اوڈھو میں قائم کی گئی ہے، بزم کی طرف سے وقت بوقت مشاعرے منعقد ہوتے رہے ہیں۔
30. ”بزم ناز [خیرپور]؛“ ٰخیرپورمیرس کا نام لیتے ہی مرحوم ڈاکٹر عطا محمد ”حامی“ کا تصور خودبخود نظروں کے سامنے آجاتا ہے، مرحوم نے سندھ کے دور دراز میں رہنے والے شاعروں کے فن کو جلابخشی اور انہیں نامور شعراء کی صف میں لاکھڑا کیا، مرحوم خود اپنی ذات میں ایک انجمن تھا، لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے ساتھیوں کے تعاون سے خیرپور میں ”بزم ناز“ بھی قائم کی، اس عرصے میں خادم رفیقی ان کے ساتھ قابل بھروسہ ساتھی کی طرح ساتھ رہے، اس بزم کی طرف سے کتنے ہی مشاعروں کا انعقاد ہوا۔
31. ”پاکستان رائٹرز گلڈ[سندھ شاخ]؛“ یہ گلڈ 1959 میں قائم ہوئی، جس کے قیام اور کارکردگی میں سندھی ادباء اور شعراء نے بھی سرگرمی سے حصہ لیا، ایسے دانشوروں میں شیخ ایاز رشید بھٹی، محمد ابراہیم جویو، علی محمد شیخ اور نیاز ہمایونی کے نام قابل ذکر ہیں، اس گلڈ نے سندھی میں شایع شدہ معیاری ادب کی ہمت افزائی کی اور سرکار سے مستحق ادیبوں کو وظیفے دلوانے میں بھی خدمات انجام دیں۔
32. ”جمعیت الشعراء [سندھ]؛“ یہ شعراء کی جماعت تقسیم سے پہلے کی ادبی جماعتوں میں سے ایک تھی جس کا 1944ء میں باقاعدہ پایہ رکھا گیا، اس جماعت نے سندھ کے مختلف شہروں میں ادبی کانفرسوں کا انعقاد کروا کے علم و ادب اور عروضی شاعری کو عام کیا۔
33. ”رانچند اکیڈمی [حیدرآباد]؛“ یہ اکیڈمی حال ہی میں قائم کی گئی تھی۔ اکیڈمی تھر کے نامور استاد، ادیب، اور تخلیقار سرگراسی رانچند کی یاد کو تازہ رکھنا اور ان کی خدمات کو اجاگر کرنے کا کام کرے گی۔ اکیڈمی کے قیام میں سرگواسی رانچند کے فرزند نفیس احمد شیخ کا بڑا عمل دخل ہے۔
34. ”سچل سرمست [حیدرآباد]؛“ سندھ کے نامور سرمست شاعر حضرت سچل سرمست کی فکر اور پیغام کو عام کرنے یہ سرکل ان کے معتدوں کی طرف سے حیدرآباد میں بنائی گئی، سردار بہادر شیخ محمد بخش، آغا غلام النبی، آغاعبدالنبی، شیخ عبدالعزیز قندھاری سیکریٹری اور مولانا گرامی اس کے پروپیگنڈہ سیکریٹری مقرر ہوئے۔ اس سرکل نے ہفتہ وار اجلاسوں کا اہتمام کیا، اجلاسوں میں سچل سائیں اور ان کی فکر پر بحث اور خیالات کا تبادلہ موضوع بحث رہا۔
35. ”سندھ رائٹرز گلڈ[حیدرآباد]؛“ یہ گلڈ بزرگ شاعر نیاز ہمایونی کی کاوشوں سے حیدرآباد میں قائم ہوئی ، گلڈ کو رجسٹرڈ کروایا گیا ہے، امید ہے کہ یہ گلڈ سندھی شاعروں، ادیبوں، عالموں، تخلیقاروں کی دل سے خدمت کرے گی۔
36. ”سندھ سبھیتا سنگت [کراچی]؛“ یہ ادبی جماعت ”ہلال پاکستان“ کے سابق ایڈیٹر سراج الحق میمن کی کوشش سے قائم ہوئی، سنگت کی طرف سے سندھ سینٹر میں ادبی محفلیں ہوتی تھی جن میں قمر شہباز، انور پیرزادہ، در محمد پٹھان اور دوسرے ادیب اور شاعر شرکت کرتے تھے۔
37. ”سندھ سگھڑ سنگت“ [لاڑکانہ]؛ یہ جماعت ڈاکٹر در محمد پٹھان کی سرپرستی میں 1975 میں قائم ہوئی، جس کی شاخیں سندھ کے مختلف اضلاع جیسا کہ شکارپور، دادو، سکھر، خیرپور اور بدین میں بھی قائم ہوئیں۔ سگھڑ سنگت میں سندھ کے سگھڑ وں کو پہلی دفعہ منتظم کرنے کی کوشش کی گئی اور ان کی مختلف جگہوں پر ہفتہ وار اور ماہوار محفلیں ہونے لگی، اس جماعت نے سگھڑوں کے فن اور فکر کو محفوظ کرنے اور شایع کرنے کی کوشش بھی کی ہے، سنگت نے شکارپوری ادیبوں کے تعاون سے شکارپور میں سندھ سگھڑ کانفرنس کا انعقاد بھی کیا، اس سنگت کے قیام اور کارکردگی کا ریکارڈ بھی میں نے ہی ترتیب دیا اور انسٹیٹوٹ آف سندھالاجی میں محفوظ کیا ہے۔
38. ”سندھ گریجوئیشن ایسوسیشن [سندھ]“ سندھ کی اس سماجی، علمی، اور ثقافتی جماعت نے جس طرح اپنے ہم وطنوں کی خدمت کی فضا قائم کی وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں، لیکن جلد ہی اس جماعت کو نظر لگ گئی، اس جماعت نے بڑے پیمانے پر لاکھنے لطیف اور سچل سرمست پر سیمینار منعقد کروائے اور سندھ کے نامور شخصیات کے دن منائے گئے، جماعت نے سندھی زبان اور علم و ادب کی اشاعت ، ترقی اور تبلیغ کے لئے قابل تعریف کوشش لیں، لیکن پاکستان اور سندھ سرکار کی طرف سے اپنے ملازمین کو اس جماعت سے دور رکھنے والے عمل نے جماعت کی کارکردگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
39. ”سندھ کلچرل اینڈ ایجوکیشنل ویلفیئر سوسائٹی [کراچی]؛“ یہ سوسائٹی کاکا صدیق اور انکے ساتھیوں کے تعاون سے قائم ہوئی، جس کی طرف سے کچھ عرصے تک کراچی کے علمی، ادبی، اور ثقافتی ماحول میں گرم جوشی کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، سوسائٹی نے لیکچر بھی منعقد کروائے اور دو تین ادبی نوعیت کے جلسے بھی کروائے۔
40. ”سندھی ادبی محفل [باڈھ]؛“ یہ ادبی محفل غلام رسول ”راز“ اور گل حسن ”بیکس“ کی کوششوں سے قائم ہوئی، اس محفل نے باڈھ کے ماحول کو کافی عرصے تک دائم و قائم رکھا۔
41. ”سندھی ادبی سنگت [سندھ]؛ “ یہ سنگت تقسیم سے پہلے کے ترقی پسند ادب والی تحریک کی نشانی ہے، سنگت سب سے پہلے 1947 میں سوبھو گیانچندانی، کیرت پاپانی، گوبند مالھی اور ان کے دوسرے ساتھیوں کی کوششوں سے قائم ہوئی، لیکن جلد ہی غیر مسلم ادیبوں کے گذر جانے کے بعد اس کی کارکردگی متاثر ہوئی، 1956 میں اسے پھر نئے سرے سے منظم کیا گیا۔ ”سندھی ادبی سنگت“ ایک موثر تحریک اور تنظیم کا نام ہے، جس کی شاخیں سندھ کے دیہاتوں اور شہروں تک پھیلی ہوئی ہیں، اس سنگت نے سندھی کے آئین میں سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کروانے والی تحریک میں سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کرانے والی تحریک میں بے مثال کارنامے سرانجام دیئے، سنگت کی شاخوں کی ہفتوار محفلیں سندھ میں علمی، ادبی، ثقافتی سرگرمیوں کو قائم و دائم رکھتی آر ہی ہیں، سنگت نئی نسل کے لئے ایک تربیتی مرکز کی حیثیت رکھتی ہے، سنگت کی کچھ شاخوں نے اپنا ریکارڈ انسٹیٹوٹ آف سندھالاجی میں محفوظ کروایا ہے۔
42. ”سندھی ادبی سوسائٹی[سکھر]؛“ یہ سوسائٹی اسلامیہ کالیج سکھر کے سندھی شعبے کے اساتذہ اور شاگردوں کی کوششوں سے قائم ہوئی، سوسائٹی شیخ راز، ڈاکٹر شریف اور ڈاکٹر عبدالمجید میمن کی کوششوں نے کتنے ہی شاگردوں کے لئے ادبی ماحول پیدا کیا، جس کے نتیجے میں کتنے ادیب پیدا ہوئے، اس سوسائٹی نے ایک آدھ ادبی کانفرنس بھی منعقد کروائی۔
43. ”سندھی ادبی سوسائٹی[شکارپور]؛“ یہ ادبی سوسائٹی شکارپوری ادیبوں اور شاعروں کی کوششوں سے قائم ہوئی، صوفی جھامنداس اور مرحوم حبیب اللہ بھٹی نے اس سوسائٹی کے قیام اور کارکردگی میں اہم حصہ لیا، سوسائٹی نے کتنے ہی ادبی نشتوں کا اہتمام کیا اور نئے ادیبوں اور شاعروں کی ادبی ماحول پیدا کر کے دیا۔
44. ”سندھی ادبی سوسائٹی [کراچی]؛“ یہ سوسائٹی سندھ کے نامور محقق اور عالم ڈاکٹر دائود پوتے کی ذاتی شوق سے 1949 میں قائم ہوئی، اس سوسائٹی کا اہم مقصد قدیم اور عظیم ادب کی اشاعت کا تھا، ڈاکٹر موصوم کی وفات کے بعد سید میراں محمد شاہ اس سوسائٹی کے چیئرمین اور ڈاکٹر غلام حسین جعفری اس کے سیکریٹری مقرر ہوئے، اس سوسائٹی نے سندھی میں اہم نادر اور اہم کتاب شایع کروائے، 1965 میں اسی سوسائٹی کی طرف سے ”ادیوں“ رسالے کا اجرا ہوا۔
45. ”سندھی سدھار سوسائٹی“[ککڑ]؛ سندھی زبان اور علم و ادب کے فروغ کے لئے یہ جماعت احمد خان ”آصف“ اور ان کے علمی و ادبی ان کے ساتھیوں کے ساتھ سے ککڑ میں قائم ہوئی، سوسائٹی کی طرف سے کتنی ہی ادبی محفلیں بلائی گئی۔
46. ”سندھی رائٹرز گلڈ [کراچی]؛“ کراچی کے ادیب علی نواز وفائی کی تحریک سے ”سندھی رائٹرز گلڈ“ قائم ہوئی، جس کے قیام میں تاج بلوچ اور یوسف شاہین نےاہم حصہ لیا، لیکن یہ گلڈ محض کاغذی کاروائی تک محدود رہی، اس کے کچھ عرصہ کے بعد ڈاکٹر در محمد پٹھان کی صدارت میں اسی نام سے ادبی جماعت بنی، جس میں بدرالدین اجن، مظہرالدین سومرو اور منیر چانڈیو وغیرہ نے بھی ڈاکٹر در محمد پٹھان کا ساتھ دیا، اس گلڈ نے کراچی کے گوئٹے انسٹیٹوٹ میں لیکچر اور ورکشاپ منعقد کروائے اور سندھ کی ادبی تاریخ میں پہلی مرتبہ سگھڑ کانفرنس کراچی میں بلائی گئی اور جلد ہی محترم نیاز ہمایونی نے حیدرآباد میں ”سندھ رائٹرز گلڈ“ قائم کی اور اخبارات دے کر اور خطوط کے ذریعے ”سندھی رائٹرز گلڈ“ کے وجود پر ناراضگی کا اظہار کیا، بزرگ ادیب کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ڈاکٹر در محمد پٹھان نے ”سندھی رائٹرز گلڈ“ کو ختم کردیا۔
47. ”سندھی سرکل [سکھر]؛“ سندھی سرکل 1952 میں شیخ مبارک ایاز کی صدارت میں قائم کی گئی، سرکل کے سرگرم کارکنوں میں شیخ راز، آفاق صدیقی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں، اس سرکل کے سہارے پر مرحوم شیخ راز کی جگہ پر سندھی چاہے اردو میں ادبی نشستیں ہونے لگی، سرکل کی طرف ایک ادبی کانفرنس بھی ہوئی، جس میں کراچی، حیدرآباد، اندروں سندھ اور لاہور اور ملتان سے کتنے ہی ادیبوں نے شرکت کی، بعد میں سرکل نے سالانہ مشاعرے بھی کروائے۔
48. ”سندھی قلمکاروں کی یادگار کامیٹی [شکارپور]؛“ یہ ادبی جماعت شکارپور کے ادیبوں اور مشاعروں جس میں ڈاکٹر عبدالخالق ”راز“، موریاتی، غلام رسول میمن، نقش نایاب منگی، پروفیسر غلام حسین بھٹی، نعمت اللہ بھٹی، انور ھکڑو، بدرالدین اجن، گرڈنومل مل ”گرل“، اور دوسرے دوستوں کی کوششوں سے شامیں منائی گئیں اور ”سندھ سگھڑ سنگت“ کے تعاون سے شکارپور اور ”سندھ سگھڑ کانفرنس“ منعقد کرائی گئی۔
49. ”سیاسی ادبی سنگت [ہالا]؛“ منصور ویراگی کی کوششوں سے قائم ہوئی اور عبدالقادر ”منور“ علی محمد ”ناز“ اور عبداللہ ”بیوس“ نے اس جماعت کی کارکردگی میں اہم حصہ لیا، اس سنگت نے صرف زبان اور ادب کی اور تبلیغ کا کام کیا، اور اشاعت کے سلسلے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
50. ”شاہ عبداللطیف کلچرل سوسائٹی[کراچی]؛“ یہ سوسائٹی سندھ کے بڑے معزز گھرانے کے ایک مالدار سید غلام مصطفیٰ شاہ کی کوششوں کا نتیجہ ہے، اس سوسائٹی کی طرف سے کبھی کبھار بڑے پیمانے پر کانفرنسز اور مشاعرے ہوتے ہیں، اس سوسائٹی کی طرف سے 1981 میں ایک شاندار ساہتا کانفرنس ہوئی، جس میں مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی، ڈاکٹر علی الانا، ڈاکٹر در محمد پٹھان، دولت مہتانی اور محمد ابراہیم جویو وغیرہ نے تعاون کیا 1982 کے آغاز میں پھر اس سوسائٹی کی طرف کراچی میں ہی ”عورت کانفرنس“ ہوئی، جو کامیاب رہی، مارچ 1984 میں ایک سوسائٹی کی طرف سے ایک اور کانفرنس ہوئی ہے۔
51. ”شیخ عبدالمجید سندھی اکیڈمی[کراچی]؛“ یہ اکیڈمی سندھ کی نامور بے لوث تحریک آزادی کے سربراھ مرحوم شیخ عبدالمجید سندھی کی زندگی میں ڈاکٹر در محمد پٹھان کی صدارت میں قائم ہوئی، اس اکیڈمی نے سندھ کی مشہور شخصیت کے کارناموں کو تازہ رکھنے کے لئے کتنے ہی سیمینار منعقد کرائے ہیں اور اس کے علاوہ اشاعتی کام بھی کئے ہیں۔
52. ”لطیف ادبی ایسوسیشن [کراچی]؛“ یہ جماعت عبدالکریم سعدی، کاکا صدیق، آزاد جتوئی اور اس کے دوستوں کی لطیف دوستی کا نتیجہ ہے، ایسوسیشن کی طرف سے کراچی میں کچھ جلسے بھی منعقد کرائے گئے۔
53. ”لطیف اکیڈمی [سکھر]؛“ یہ اکیڈمی مرحوم عبدالرزاق ”راز“ اور اس کے ساتھیوں کی کوشش سے قائم ہوئی، اس اکیڈمی نے سکھر اور شکارپور کے ادیبوں اور مشاعروں کو ادبی ماحول مہیا کیا۔
54. ”مجلس احباب [نوان جتوئی]؛“ یہ ادبی جماعت نواں جتوئی کے نامور شاعروں کی کوششوں سے قائم ہوئی، مجلس نے مقامی نوعیت کے مشاعرے منعقد کروائے، متحرم نجف جتوئی نے اس مجلس کے قیام اور کارکردگی میں اہم حصہ لیا۔
55. ”محفل احسن ادب [دادو]؛“ یہ محفل دادو کے علم دوست ادیبوں اور شاعروں کی کوششوں سے قائم ہوئی، محترم ”محسن“ ککڑائی کتنا ہی عرصہ محفل کے جنرل سیکریٹری رہے، اس محفل نے کتنا ہی عرصہ دادو کے ادبی ماحول کو معطر کئے رکھا اور نئے شاعروں کو اپنی ذات کی جوت جلانے کا موقع فراہم کیا۔
No comments:
Post a Comment